Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جنسی معاملات میںنوجوانوں کیساتھ رویہ (انجینئر کاشف وسیم)

ماہنامہ عبقری - مارچ 2011ء

بچوں میں جنسی شعور کو دبانا نہیں چاہیے۔ لانگ فیلٹ کہتے ہیں کہ اگر جنسی گفتگو کے سلسلے میںکسی بچے کو مارا پیٹا جائے یا اسے برا بھلا کہا جائے تو اس کی جنسیت اور جارحیت آجاتی ہے۔ امریکہ جہاں بچوں کی جنسیت کو ممنوع تصور کیا جاتا ہے ناروے کے معالج امراض نفسیات تھورے لانگ فیلٹ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ بچے کے جنسی جذبات کو دبانے کے نتیجے میں اس کی شخصیت غیرمرتب اور جارحیت پسند ہوجاتی ہے۔ جنسی تعلیم سے متعلق پہلی بین الاقوامی کانفرنس نئی دہلی میں منعقد ہوئی جس میں لانگ فیلٹ نے کہا کہبہت سے بالغ افراد بچوں کی حیثیت کو بہت کم کرکے اندازہ لگاتے ہیں۔ جنسیت کے موضوع پر سکوت بہت سے بچوں کیلئے آفت اور بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ بعض اوقات والدین بچوں کو جنسی جذبات کے اظہار پر سخت سست کہتے یا سزا دیتے ہیں۔ والدین کا یہ عمل مستقبل میں ان بچوں کے بالغ ہونے پر اس کی جنسی زندگی میں بہت سے مسائل پیدا کردیتا ہے جن کی وجہ سے بعض اوقات وہ جرائم کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ بچوں میں جنسی شعور کو دبانا نہیں چاہیے۔ لانگ فیلٹ کہتے ہیں کہ اگر جنسی گفتگو کے سلسلے میںکسی بچے کو مارا پیٹا جائے یا اسے برا بھلا کہا جائے تو اس کی جنسیت اور جارحیت آجاتی ہے۔ امریکہ جہاں بچوں کی جنسیت کو ممنوع تصور کیا جاتا ہے وہاں پورے ملک میں زنابالجبر کے واقعات بڑی کثرت سے پیش آتے ہیں۔ نامردی‘ اشیاءپرستی یا جنس پرستی اور مخالف جنس جیسا بننے کے شوق کی جڑیں دراصل بچوں کی جنسیت کو دبانے کے عمل میں پیوست ہوتی ہیں۔ بچوں کی جنسیت کو دبانے کا عمل پوری دنیا میں عام ہے۔ اسے ہم بین الاقوامی رویہ کہہ سکتے ہیں۔ اس رویہ کو تبدیل کرنے کیلئے کام نہ ہونے کے برابر ہوا ہے۔ لانگ فیلٹ نے کہا کہ ہم نے بالغ افراد میں جنسیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور اسے سمجھنے پر ایک طویل مدت صرف کی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ہم بچوں کی جنسیت پر توجہ مرکوز کریں کیونکہ بالغ افراد کے اکثر جنسی مسائل کی جڑیں ان بچوں میں پیوست ہوتی ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں میں جنسی مسائل عام تصورات سے کہیں زیادہ پائے جاتے ہیں لیکن معالج حضرات بچوں کی جنسیت کی طرف کم سے کم توجہ کرتے ہیں اور خود بچے بھی بڑوں کے سامنے اپنے جنسی جذبات و احساسات کا اظہار نہیں کرتے۔ میرے خیال سے جنسی معلومات نوعمروں تک پہنچانا اور حقیقت ایک تہذیبی مسئلہ اور قطعی طور پر ایک ثقافتی معاملہ ہے اور کلیہ کے طور پر ہر تہذیب اور ثقافت کیلئے اختیار کرنا صحیح نہیں ہوسکتا۔ راقم الحروف نے مغرب بالخصوص امریکہ میں یہ رویہ دیکھا ہے کہ جنسی معاملات لڑکے اور لڑکی کا ذاتی معاملہ ہے اور ان کو حق ہے کہ وہ اس بات میں آزادی اختیار کریں۔ امریکہ نے پوری فراخ فکری کے ساتھ اپنے ہاں لاکھوں بچوں کے یتیم ہوجانے کے خطرات موجود ہیں۔ تہذیب اسلامی اور ثقافت مسلم اس بات میں نہایت واضح رویے کی حامل ہے۔ وہ نوعمروں اور نونہالوں کو جنسی فکر کی آزادی دینے کوقطعاً روا نہیں رکھتی۔ اس کے نزدیک شائستگی یہ ہے کہ جنسی معاملات ہمیشہ پردہ اخفامیں رہیں اور انسان اس باب میں حیوانیت کا روپ اختیار نہ کرے۔ جنسی سوچ اور صحت کے تقاضے تاریخ کے ہر دور میں انسان اپنی صحت قوت اور جسمانی حالت کو خوب سے خوب تر بنانے کیلئے بہت کچھ کرتا چلا آیا ہے۔ چنانچہ مردو زن آج بھی صحت اور قوت کو قائم رکھنے کیلئے نیز ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ آج بھی نت نئے نسخے‘ لوشن اور ورزش کے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں۔ اہل مغرب تو آج کل اس طرف خاص توجہ دے رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے سارے تجربے اور فارمولے آج بھی خصوصاً جنسی قوت و استواری کیلئے چند روزہ خوش فہمی سے زیادہ اثر نہیں رھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تجربہ گاہوں میں اب نوبت مصنوعی طریقوں کی تلاش تک پہنچ گئی ہے جو وقتی طور سے ہی مردانہ قوت کو قائم رکھ سکیں۔ مردو زن میں چند لمحوں کی محبت اور کشش پیدا کرسکیں۔ مجاسعت کے فعل کو بخوبی تکمیل تک پہنچانے کیلئے جس سچی محبت‘ لگن‘ جوش اور قوت کی ضرورت ہے اس کی جگہ وقتی محبت اور جھوٹے جوش کو اپنانے کیلئے وہ مصنوعی ادویات کو استعمال میں لاتے ہیں۔ اگر سینکڑوں سال پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اس دور میں جہاں مردو زن اپنے اپنے حسن و شباب کو دیرپا رکھنے کیلئے مختلف طور طریقے اور ادویات استعمال کرتے تھے وہاں اپنے جنسی اعضاءاور ملحقہ پٹھوں وغیرہ کی پرورش اور نگہداشت پر بھی کامل توجہ دیتے تھے۔ بدقسمتی سے فی زمانہ اس قسم کا تصور بھی ذہنی عیاشی اور بے شرمی بن کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ہم اپنے جسم کی ایک ایک نوک پلک کو سنوارنے میں وقت‘ پیسہ اور محنت صرف کرتے ہیں لیکن میں اعضاءپر انسانی افزائش‘ ذہنی آسودگی اور طبعی بالیدگی کا انحصار ہے۔ اسے شجرممنوع قرار دے کر اس کی طرف اس وقت تک دھیان نہیں دیتے جب تک جسم کے یہ اہم اعضاءبیمار ہوکر ناکارہ نہیں ہونے لگتے اور اس وقت بھی ہمارے نزدیک ان اعضاءکی وقتی مرمت کا خیال پیش پیش ہوتا ہے چاہے اندر ہی اندر بیماری کا دیمک چاٹ رہا ہو۔ جس طرح مناسب غذا اور صفائی وغیرہ کا خیال نہ رکھنے سے انسانی جسم کے دوسرے اعضاءبیمار پڑجاتے ہیں اسی طرح جنسی اعضاءکا خیال نہ رکھنے سے یہ بھی بیمار ہوجاتے ہیں اور جس طرح بیمار انسان سست‘ کاہل اور مجہول ہوجاتا ہے یہ بھی سست اور ناکارہ ہوجاتے ہیں اور جب ان مخصوص اعضاءکی کمزوری کا پتہ چلتا ہے تو اس وقت احساس کمتری کے سبب اور جلدازجلد صحت یاب ہونے کی آرزو میں اشتہار باز اور مجموعہ لگانے والے نام نہاد معالجوں کے چکروں میں پھنس جاتے ہیں یا پھر سنے سنائے ٹوٹکوں پر عمل کرتے ہیں۔ افسوس کہ آج کا مرد پہلے جیسا مرد نہیں رہا۔ اس قوم کا کیا حشر ہوگا جس کے نوجوان نوعمری میں ہی بدعادتوں میں پڑجائیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 062 reviews.